جب ہم 2009 میں داخل ہوئے تو مجھے احساس ہوا کہ جارج ڈبلیو بش ایک اہم ورثہ چھوڑ گیا ہے۔ غزہ میں اسرائیلیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کا جاری قتلِ عام مجھے اس بات پر قائل کر چکا ہے کہ بش نے ہمیں کچھ غیر معمولی چیز ورثے میں دی ہے۔ غزہ میں فلسطینیوں کا قتلِ عام مجرمانہ ہے، سیدھا اور سادہ۔ فلسطینیوں کے پاس یقیناً کوئی ذریعہ نہیں کہ وہ اسرائیلی (جو “امریکہ میں بنے ہوئے” بم ہیں) کا دفاع کر سکیں۔ میرا پہلا ردعمل یہ تھا کہ بش کو اسرائیلی جنگی مشین کی غیر مشروط حمایت پر مذمت کی جائے۔ لیکن پھر مجھے احساس ہوا کہ جارج بش فلسطینیوں اور عربوں کے لیے خدا کی طرف سے ایک تحفہ رہا ہے۔ جی ہاں، وہ عربوں کا ایک “دوست” ہے۔
میرا مقصد ہرگز عراق اور افغانستان میں مرنے والے بیس لاکھ سے زائد افراد کی بے حرمتی کرنا نہیں ہے۔ بش اور اس کی جنگی پارٹی “جنگی مجرموں” کے قریب تر ہیں۔ انہیں ایک دن لازمی طور پر انسانیت کے خلاف جرائم میں اپنے کردار پر سزا دی جائے گی۔ لیکن بش عربوں کا ایک دوست ہے۔ درحقیقت، میرا خیال ہے کہ اقتدار میں رہتے ہوئے بش نے صدام حسین کے نامکمل کام کو جاری رکھا۔ صدام ایک پکا عرب قوم پرست اور فلسطینیوں کا حامی تھا۔ اگر تاریخ صدام حسین کو بھلانا نہ چاہے، تو یہ اس لیے ہوگا کہ اس نے عربوں کو مقدس سرزمین کو مشرقی یورپی صیہونی قابضوں سے آزاد کرانے کا راستہ دکھایا۔ صدام حسین نے 1980 کی دہائی میں یہ سمجھ لیا تھا کہ عرب اسرائیل کو شکست نہیں دے سکتے جب تک کہ وہ متحد نہ ہوں اور عرب نوآبادیاتی سرحدوں کو ختم نہ کر دیں۔ یہ صدام کی میراث ہے: وہ پہلا شخص تھا جس نے مشرقِ وسطیٰ میں یورپی نوآبادیاتی سرحدوں کو مٹانے کی کوشش کی۔ آج “عرب گلیوں” میں یہ جذبہ پایا جاتا ہے کہ پورے خطے کو متحد کیا جائے۔
جارج ڈبلیو بش نے وائٹ ہاؤس میں اپنے آٹھ سالہ دورِ اقتدار میں اسرائیل کو غیر مشروط حمایت دی۔ اس نے دنیا بھر میں، حتیٰ کہ خود امریکہ میں بھی، بہت سے لوگوں کو حیران اور ششدر کر دیا۔ لیکن اس غیر مشروط حمایت کا نتیجہ اب غزہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اسرائیلی بے دفاع عورتوں اور بچوں کو مارنے میں مزہ لیتے ہیں۔ یہ باقاعدہ قتلِ عام پورے خطے کے عربوں کے ذہنوں میں نفرت کو جنم دے رہا ہے۔ قبضہ ختم کرنے کا عزم بڑھ رہا ہے۔ اسرائیل کو تباہ کرنے کی خواہش ہمیشہ سے موجود تھی، مگر اب بش نے ان خواہشات کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ میرا یقین ہے کہ عربوں نے اپنے ذہن میں فیصلہ کر لیا ہے کہ خطے میں آزادی بحال کرنی ہے۔ وہ جہاد شروع کریں گے، یعنی ایک جنگ، ایک بڑی جنگ۔ لاکھوں مسلمان فوج میں شامل ہوں گے۔ صیہونیت نے اگرچہ یہودیوں کو طاقت اور دولت دی ہے، لیکن یہ عربوں اور مسلمانوں کو متحد کرنے کا سبب بھی بن رہی ہے۔ صدام حسین نے عربوں کی آزادی جیتنے کے لیے عراق کی قربانی دی، اور اب سوال یہ ہے کہ کیا بش صدام حسین کے نقشِ قدم پر چل رہا ہے اور عملاً امریکہ کو تباہ کر رہا ہے؟ تاریخ کے یہ تضادات حیران کن ہیں۔ جارج بش کا شکریہ، عرب اپنے ذہن کی طاقت دوبارہ حاصل کر رہے ہیں۔
تصویر کا ماخذ: www.independent.co.uk




